تحریر: سویرا بتول
حوزہ نیوز ایجنسی । عصرِحاضر کی نسل کتب سے اتنی ہی دور ہے جتنی ٹیکنالوجی سے قریب تر۔کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ عصرِ حاضر کی نسل کیا جانے کہ بہن بھاٸیوں سے تعلیم وتربیت چھین کر پڑھنے یا والد کے ڈر سے رضاٸی میں چھپ کر ڈاٸجسٹ پڑھنے کا لطف کیا ہے۔کسی کتاب کی تلاش میں گھنٹوں پرانی انارکلی کی خاک چھاننا اور مطلوبہ کتاب کے مل جانے کی خوشی کیا ہوتی ہے، کتاب کے مل جانے پر خوشی سے نعرہ لگانا اور اسی خوشی میں سہیلیوں کو فوڈسٹریٹ سے گول گپے کھلانا کتنا حسین احساس بخشتاہے۔اک زمانہ ہوتا تھا جب پاک ٹی ہاٶس کی رونقیں عروج پر ہواکرتیں تھیں،ادبی محفلیں خوب جما کرتیں تھیں اور پرانی انارکلی کی سڑکوں پر سر دھننے کی جگہ نہ ہوتی تھی مگر اس سب کے باوجود بھی علم کی جستجو اور تڑپ اُسی مقام پر کھینچ کر لادیتی تھی۔گھنٹوں ایک کتاب پر تبصرہ کرناجیسے ہم سے بڑا کوٸی ادیب یا نقاد نہ ہو اورمہدی حسن کی آواز میں فیض،ناصر کاظمی اور حسرت موہانی کی غزلیں سننا کتنا پرمسرت احساس بخشتا تھا مگر اب یہ سب پرانے وقتوں کی باتیں لگتی ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ جن کتابوں کو اچھے قاری نہیں ملتے اِن پر جلد مُردَنی چھا جاتی ہے۔ہمارا ذاتی اعتقاد ہے کہ آج یہ مُردَنی نہ صرف کتابوں پر بلکہ ادب پر بھی چھاگٸی ہے۔آپ خود سے سوال پوچھ کر بتاٸیں کہ آپ نے آخری بار کسی معیاری کتاب کا مطالعہ کب کیا تھا؟ آخری بار کتاب کا تحفہ اپنے کسی عزیز کو کب دیاتھا؟نٸی کتب کا لمس اور مہک کب سونگھی تھی؟ کتابوں میں پھول رکھے کتنا عرصہ بیت گیا؟پرانی کتب کی گرد صاف کیے کتنی مدت گزرگٸی؟ اگر آپ کتاب دوست ہیں تو یقینا یہ سوالات مشکل نہیں مگر اگر صرف نام تک کتابوں سے دوستی ہے تو یہ نہ صرف کتب کی بلکہ ادب کی تضحیک ہے۔کتاب کا مطالعہ آپ کو ایک لمحے کے لیے دنیا کےتمام دکھ درد بھلادیتا ہے۔ابھی اٹھیے ایک گرم گرم چاٸے کا مگ بناٸیں اور کسی اچھی کتاب کی سیر کو چلےجاٸیں۔یقین کیجیے تھوڑی دیر کےلیے آپ دنیا کےتمام دکھ درد بھول جاٸیں گے۔کتب بینی کےفروغ کےلیے بہت سارے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔پبلک لاٸبریریز کا قیام اس معاملہ میں مددگار ثابت ہوسکتا،اور نہیں تو چار کرسی میز لگاکر چاٸے خانوں کو ہی لاٸبریری میں بدل دیجیے،مقالہ نویسی کے پروگرامات منعقد کیجیے ادب کے فروغ کے لیے نام نہاد بڑی ڑی ورکشاپس کی بجاٸے دس بارہ جوانوں کی ہی تربیت کا بیرہ اٹھالجیے۔باخدا آپ کی یہ زحمات نہ صرف اردو کی ترویج میں اپنا کردار ادا کریں گی بلکہ رہتی دنیا تک علم و جستجو کی دنیا میں آپ کا نام ہوگا۔یاد رکھیے جو علم کی جستجو میں اپنا کردار ادا کرتے وہ کبھی بھی تاریخ کی گرد کا سبب نہیں بنتےبلکہ دنیا انہیں سنہری حروف سے یاد رکھتی ہے۔
حالیہ دنوں میں شاعری کا عالمی دن منایاگیا مگر یہ دن اس خاموشی سے گزرگیا کہ ادب سے شغف رکھنے والے احباب کو بھی علم نہ ہوا۔پاک ٹی ہاٶس اور ایسی دیگر ادبی مقامات کی رونقیں کیسے بحال ہوسکتیں ہیں؟ موجودہ ادب کے زوال کا ذمہ دار کون ہے؟ عرصہ بیت گیا برصغیرمیں ایک بڑا نقاد پیدا کیوں نہ ہوسکا؟ ان سب سوالات کے جواب کس کے پاس؟ کیا ادب سے ہماری موجودہ بے اعتناٸی پر ہماری آٸندہ نسل ہمیں معاف کر سکے گی؟شعرإ کے نام پر تہذیب حافی اور علی زریون جیسے شعرا کی موجودگی کیا ادب کی بے ادبی نہیں؟ ایسے اشعار اگر غالب سنتے تو شاید ادب کی فاتحہ پڑھ چکے ہوتے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیاجاٸے، معیاری کتب کو فروغ دیا جاٸے۔مطالعہ کی ثقافت کو پروان چڑھایا جاٸے،معیاری کتب جس قدرممکن ہوسکے کم قیمت پر فروخت کی جاٸیں تاکہ سب کے قوتِ خرید میں ہو۔ہفتہ وار بک اسٹال کا اہمتام کیا جاٸے،ادبی مقامات کی رونق بحال کی جاٸے جگہ جگہ چاٸے خانے بنانے کی بجاٸے انہی چاٸے خانوں کو پبلک لاٸبریری میں تبدیل کیا جاٸے اور کچھ نہیں تو اپنے علاقے میں ایک چھوٹی میز، چند کرسیاں اور کتب رکھ کر موجودہ نسل کو مطالعہ کی طرف متوجہ کیا جاٸے ورنہ ادب سے اس بے ادبی پر آٸندہ نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی خدا نہ کرے کہ ہمیں کہنا پڑے یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی !!!!
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔